سکردو کا دلخراش واقعہ: 2025 میں پانی میں بہ جانے والی شاہدہ اسلام کی فیملی کی داستان

رات کا ریسکیو آپریشن سکردو میں
پاکستانی آرمی اور مقامی افراد رات کے سناٹے میں ریسکیو مشن میں مصروف
ریسکیو ٹیم مٹی کھود رہی ہے
ریسکیو ٹیم مٹی کھود کر لاشیں تلاش کر رہی ہے
ریسکیو ٹیم کی مشترکہ کوشش
ریسکیو 1122 اور دیگر ٹیمیں مصروف عمل ہیں
سکردو وادی کا نظارہ
سکردو وادی: قدرتی حسن کے بیچ چھپا خطرہ

  جولائی کے  وسط میں شمالی پاکستان کے خوبصورت مگر خطرناک علاقے سکردو کے قریب، شاہدہ اسلام میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج و ٹیچنگ اسپتال (لودھراں) کی مالکہ شاہدہ اسلام کے قریبی عزیز سیلابی ریلے کا شکار ہو گئے۔ اس دلخراش واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو صدمے میں مبتلا کر دیا۔

متاثرہ افراد میں سعودی اسلام، فہد اسلام اور ان کے اہل خانہ شامل تھے، جن کی کل تعداد تقریباً 22 افراد پر مشتمل تھی۔ یہ سب افراد ڈاکٹر شاہدہ اسلام کے قریبی عزیز اور رشتہ دار تھے۔
یہ خاندان سیاحت کے لیے شمالی پاکستان کے خوبصورت علاقوں کا سفر کر رہا تھا جب تھک نالہ، چلاس کے قریب، سکردو روٹ پر اچانک ایک سیلابی ریلہ نالے میں داخل ہوا۔ پانی کی شدت اور بے خبری کے باعث، کئی افراد بہہ گئے اور حادثہ المیے میں تبدیل ہو گیا۔

حادثے کے فوراً بعد پاکستانی ریسکیو ٹیموں اور مقامی رضاکاروں نے انتہائی جانفشانی سے 24 گھنٹے مسلسل سرچ آپریشن کا آغاز کیا۔ ریسکیو کے لیے ایمبولینسز، ہیلی کاپٹرز اور نالے کی گہرائی میں تلاش کے لیے کشتیوں کا استعمال کیا گیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں تمام 22 افراد میں سے کچھ کو زندہ بچا لیا گیا، تاہم بدقسمتی سے کئی افراد پانی کی تیز لہروں میں بہہ گئے، جن کی لاشیں بعد ازاں نکال لی گئیں۔ یہ آپریشن نہ صرف ہمت و حوصلے کا عکاس تھا بلکہ مستقبل کے لیے کئی اہم سوالات بھی چھوڑ گیا۔

متاثرہ خاندان کے افراد نے بتایا کہ سیلابی ریلہ اچانک اور غیر متوقع طور پر پانی کی سطح بڑھنے کی وجہ سے آیا، اور کسی قسم کی پیشگی وارننگ یا انتباہی نظام فعال نہیں تھا۔
اس سانحے پر ردِعمل دیتے ہوئے حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ سیاحتی علاقوں میں موجود قدرتی نالے اور دریاؤں کے قریب کیمپنگ یا قیام انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ پانی کی تیزی میں اچانک اضافہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

این ڈی ایم اے اور ریسکیو 1122 نے اعلان کیا کہ مستقبل میں تمام حساس سیاحتی علاقوں میں فوری خطرے کے وارننگ سسٹم نصب کیے جائیں گے تاکہ اس قسم کے حادثات کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔

ایک راہگیر نے جذباتی انداز میں کہا:

“کیا آپ جانتے ہیں کہ اچانک پانی کی تیزی نے کون سی زندگیوں کو چھین لیا؟ ہمیں کوئی انتباہ نہیں ملا تھا!” 

متاثرین کا کہنا تھا“ہم بس ایک لمحے میں ختم گئے… سب کچھ نارمل تھا، اچانک پانی آیا اور سب کچھ بہا لے گیا۔ ہمیں کوئی انتباہ نہیں دی گئی، کوئی وارننگ نہیں تھی۔ بچے، خواتین، سب. ہمارے سامنے ریلہ لے گیا۔اگر آرمی اور مقامی لوگ فوراً نہ پہنچتے، شاید کوئی نہ بچتا۔“ہم نے لاشیں خود نکالیں، رسی باندھ کر بہتے پانی سے کھینچیں۔ لوگ چِلّا رہے تھے، بچے ڈر کے مارے ساکت تھے۔ متاثرین نے حکومت سے بارہا اپیل کی کہ وارننگ سسٹمز ک تنصیب، ریسکیو ٹیم کی پیشگی موجودگی، اور ہنگامی ردعمل کے مؤثر نظام کو فوری طور پر فعال کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی خاندان ایسے     دلخراش سانحے کا شکار نہ ہو۔

اس المناک واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے صرف بروقت تیاری اور ذمہ دار رویہ ہی بچاؤ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
سیاحوں کو چاہیے کہ وہ نالوں یا دریاؤں کے قریب کیمپنگ یا قیام سے گریز کریں اور سفر سے قبل موسم کی پیشن گوئی اور مقامی گائیڈز کی ہدایات پر عمل کریں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تھک نالہ، بابو سر ٹاپ اور دیگر حساس سیاحتی علاقوں میں مستقل وارننگ سسٹم، سی سی ٹی وی کیمرے، اور مقامی ہیلپ لائنز کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ مستقبل میں ایسی جان لیوا صورتحال سے بچا جا سکے۔
عام شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سفر سے قبل اپنے قریبی عزیزوں کو مطلع کریں، اور دورانِ سفر GPS اور موبائل ڈیٹا آن رکھیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری مدد ممکن ہو

2 thoughts on “سکردو کا دلخراش واقعہ: 2025 میں پانی میں بہ جانے والی شاہدہ اسلام کی فیملی کی داستان”

Leave a Comment